برسات کے موسم میں جب اُودے اُودے بادل آسمان پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں تو اچانک کہیں دور سے کوئل کی رسیلی آواز کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے۔ برسات اور کوئل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمارے ملک سے برسات رخصت ہوتا ہے تو کوئل بھی غائب ہوجاتی ہے مگر ہم میں سے شاید ہی کبھی کسی نے غور کیا ہو کہ کوئل کہاں سے آتی ہے اور برسات گزرجانے کے بعد آخر کہاں چلی جاتی ہے۔ پرندوں کی عادات و اطوارکا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں آسانی سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم کے وہ پرندے ہیں جو مستقل طور پر کسی ایک جگہ قیام کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو کسی ایک موسم میں آتے ہیں اور موسم بدلتے ہی رخصت ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرندوں کی ایک ایسی قسم بھی ہوتی ہے جو پرواز کی صلاحیت سے محروم ہے۔ مگر نہایت تیزرفتاری سے سفر کرتے ہوئے نقل مکانی کرتے ہیں۔ جب پرندوں کے غول اپنے مقامات بدلتے ہیں تو سفر کے دوران شکاری پرندے ان پر جھپٹ پڑتے ہیں اور ان میں سے بہت سے پرندوں کو شکار کرکے اپنی غذا بناتے ہیں۔ بعض اوقات سمندروں کوعبور کرتے ہوئے بہت سے پرندے اڑتے اڑتے تھکن سے اتنے بدحال ہوجاتے ہیں کہ ان کو ہوا میں اپنے آپ کو سنبھالنا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ سمندر میں گرکر بے رحم لہروں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ای سی سٹوارٹ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ چھوٹے چھوٹے دو سو کے لگ بھگ پرندے دوران سفر جہاز کے فرش پر گرپڑے اور وہ اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ پکڑنے پر بھی نہ اڑسکے۔درجہ حرارت پر امریکی ڈاکٹر کینڈخ نے کافی تحقیق کی ہے ان کی تحقیق کے مطابق پرندے کی ہرقسم میں ایک مخصوص حد تک درجہ حرارت کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ اس سے آگے وہ زندگی کھوبیٹھتے ہیں۔
انسان بھی پرندوں کا کم دشمن نہیں ہے۔ سجاول اور کلری پر شکاری اس موسم کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں جب سرما میں سائبیریا سے پرندے ان جگہوںپر آجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کتنی زیادتی ہے کہ بے یارومددگار اور بے ضرر پرندے جب اپنے سفر کی کٹھن منزلیں طے کرنے کے بعد کچھ عرصے کیلئے سستانے کو کہیں ٹھہریں تو سنسناتی ہوئی گولیوں سے ان کا استقبال کیا جائے۔پرندوں کی راستہ معلوم کرنے کی صلاحیت انسان کیلئے ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ وہ کس طرح اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں اور پھر کس طرح اس منزل تک پہنچنے کیلئے راستہ طے کرکے اس پر قائم رہتے ہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج تک صحیح معنوں میں حل نہیں ہوسکا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پرانے اور بوڑھے پرندے نوعمر پرندوں کو اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے ہیں اور انہیں راستہ دکھاتے ہیں۔ پشت در پشت یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس طرح پرانی نسل ہر نئی آنے والی نسل کی رہنماثابت ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی پایہ تصدیق کو نہیں پہنچ سکی بلکہ ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ جس میں نئی نسل پرانی نسل کی مدد کے بغیر نقل مکانی کرتی ہوئی دیکھی گئی۔اسی طرح پرندوں کی بلندی پرواز اور رفتار کے بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ قدیم نظریات کے تحت پرندے پندرہ ہزار‘ تیس ہزار اور چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے تھے لیکن جدید تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے۔ دراصل مختلف پرندے نقل مکانی کے دوران مختلف بلندیوں پر پرواز کرتے ہیں۔ عام طور پر پرندوں کا غول تین ہزار فٹ کی بلندی سے زیادہ اوپر نہیں جاتا بلکہ بعض اوقات تو اس کے نصف سے بھی کم بلندی پر پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ میدانی علاقوں کے کچھ پرندے پانچ ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتے ہیں۔
گینر‘ پیلیکون اور مرغابی کو بعض اوقات آٹھ نو ہزار فٹ کی بلندی پر بھی پرواز کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ سارس کو بیس ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ غالباً ڈاڑھی والا گدھ ایسا پرندہ ہے جو سب سے زیادہ بلندی پر پرواز کرنے کا اہل ہے۔ 1921ء میں ڈاکٹر وولاس ٹن نے ایسے ہی ایک گدھ کوچوبیس ہزار فٹ کی بلندی پر ماؤنٹ ایورسٹ پر اڑتے ہوئے دیکھا۔ میجر چیمین نے سائمن نامی دس ہزار فٹ کی پہاڑی پر پرندوں کے غول دیکھے پرندے عام طور پر بیس اور چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تجاوز نہیں کرتے۔ لیکن بعض پرندے مثلاً مرغابی‘ شاہین‘ شکرہ اور عقاب ایسے پرندے ہیں جن کی رفتار نقل مکانی کے دوران سومیل فی گھنٹہ تک ہوتی ہے کوہی ابابیل کو سب سے تیز رفتار پرندہ شمار کیا گیا ہے اس کی رفتار دوسو میل فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں